تجھے کیا خبر مِرے ہم سفر مِرا مرحلہ کوئی اور ہے
مجھے منزلوں سے گریز ہے میرا راستہ کوئی اور ہے
میری چاہتوں کو نہ پوچھئے جو ملا طلب سے سوا ملا
مِری داستاں ہی عجیب ہے، مِرا مسئلہ کوئی اور ہے
یہ ہوس کے بندے ہیں ناصحا! نہ سمجھ سکے مِرا مُدعا
مجھے پیار ہے کسی اور سے، مِرا دلربا کوئی اور ہے
مِرا ذوق سجدہ ہے ظاہری کہ ہے کشمکش مِری زندگی
یہ گمان دل میں رہا سدا، مِرا مُدعا کوئی اور ہے
میں چلا کہاں سے خبر نہیں کہ سفر میں ہے مِری زندگی
مِری ابتداء کہیں اور ہے، مِری انتہا کوئی اور ہے
مِرا نام درشنِ خستہ تن، مِرے دل میں کوئی ہے ضو فگن
میں ہوں گم کسی کی تلاش میں مجھے ڈھونڈھتا کوئی اور ہے
درشن سنگھ
No comments:
Post a Comment