تم جہاں تھے وہاں کے تھے ہی نہیں
یعنی، تم اس جہاں کے تھے ہی نہیں
کیسے اُلجھے ہیں کارِ دنیا میں
ہم جو سُود و زیاں کے تھے ہی نہیں
میں تو اک وحشتِ دِگر میں تھا
مسئلے جسم و جاں کے تھے ہی نہیں
دشتِ جاں سے نگاہِ یار تلک
راستے درمیاں کے تھے ہی نہیں
کیوں مِری داستاں کا حصہ ہیں
جو مِری داستاں کے تھے ہی نہیں
خواب، بے برگ و بار کیسے ہوئے
جب کہ یہ دن خزاں کے تھے ہی نہیں
اقبال خاور
No comments:
Post a Comment