شبِ ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں
کہ دن بھر کی بِیتی کو دہرا رہے ہیں
مِرے دل کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں
محبت کی تشریح فرما رہے ہیں
مِرا درد جا ہی نہیں سکتا توبہ
خدائی کے دعوے کیے جا رہے ہیں
ہنسی آنے کی بات ہے ہنس رہا ہوں
مجھے لوگ دیوانہ فرما رہے ہیں
عجب شے ہے سوز و گدازِ محبت
کہ دل جلنے میں بھی مزے آ رہے ہیں
اسی بے وفا پاس پھر کچھ امیدیں
لیے جا رہی ہیں چلے جا رہے ہیں
ضِدیں توبہ توبہ،۔ ہٹیں اللہ اللہ
ہمیں ہیں جو اس دل کو بہلا رہے ہیں
مِری رات کیوں کر کٹے گی الٰہی
مجھے دن کو تارے نظر آ رہے ہیں
نہ آغاز اُلفت کا اچھا تھا منظر
نہ انجام اچھے نظر آ رہے ہیں
منظر لکھنوی
No comments:
Post a Comment