رات بھر خواب میں یوں انجمن آرائی کی
اس کی تصویر تصور سے دلآرائی کی
جانے کب دے گا درِ دل پہ وہ آ کر دستک
اب تو حد ہو گئی مہجوری و تنہائی کی
جان لے لے نہ کہیں وعدۂ فردا اس کا
مجھ میں طاقت نہیں اب اور شکیبائی کی
آج بھی یاد ہے وہ لہجۂ شیریں اس کا
دور سے جیسے صدا آتی ہو شہنائی کی
کِھل اُٹھا غنچۂ دل اس کی مہک سے میرا
’’اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘
غمزہ و ناز و ادا اس کے تھے غارتگرِ ہوش
دیکھ کر بھُول گیا بات میں دانائی کی
اس میں شامل ہے مِرا خونِ جگر بھی برقی
بات یہ صرف نہیں قافیہ پیمائی کی
احمد علی برقی اعظمی
No comments:
Post a Comment