Saturday 27 March 2021

جانتا ہوں حریف جاں ہیں سب

 جانتا ہوں حریفِ جاں ہیں سب

ہاں، مگر آج وہ کہاں ہیں سب

ایک میں ہی زمیں کی صورت ہوں

اور باقی تو آسماں ہیں سب

کون میری زباں سمجھتا ہے

یوں تو کہنے کو ہمزباں ہیں سب

میں سبھی کو سمجھتا حق گو ہوں

اور مجھ سے ہی بد گماں ہیں سب

کون سی مصلحت ہے جو مجھ پر

اس قدر آج مہرباں ہیں سب

سن کے سارے ہی سانحات مرے

لوگ بولے کہ داستاں ہیں سب


خواجہ جاوید اختر

No comments:

Post a Comment