نظر سے دور ہوتے جا رہے ہیں
سراپا نور ہوتے جا رہے ہیں
جنہیں بدنام کرنا چاہتے ہو
وہی مشہور ہوتے جا رہے ہیں
ہم آغاز سفر سے پہلے ہی کیوں
تھکن سے چور ہوتے جا رہے ہیں
بڑھی ہے روشنی تہذیب نو کی
مکاں بے نور ہوتے جا رہے ہیں
ہر اک اپنا جنازہ ڈھو رہا ہے
سبھی مزدور ہوتے جا رہے ہی
کھلے تھے پھول زخموں کے جو اک دن
وہ اب ناسور ہوتے جا رہے ہیں
خواجہ جاوید اختر
No comments:
Post a Comment