درد سا اٹھ کے نہ رہ جائے کہیں دل کے قریب
میری کشتی نہ کہیں غرق ہو ساحل کے قریب
وجد میں روح ہے اور رقص میں ہے پائے طلب
دیکھیے حال مِرے شوق کا منزل کے قریب
رہ گیا تھا جو کبھی پائے طلب میں چُبھ کر
اب وہی خارِ تمنا ہے رگِ دل کے قریب
اب وہ پیری میں کہاں عہدِ جوانی کی امنگ
رنگ موجوں کا بدل جاتا ہے ساحل کے قریب
جذبۂ شوق بھی کچھ کام نہ آیا ہادی
ناتوانی نے بٹھایا مجھے منزل کے قریب
ہادی مچھلی شہری
No comments:
Post a Comment