آج کچھ کہنے کو تھی شوخئ تدبیر مِری
ہنس پڑی پاس کھڑی تھی کہیں تقدیر مری
ٹُوٹتے ہی سے ہوئی دل میں کشاکش پیدا
میری تخریب میں پوشیدہ تھی تعمیر مری
حرّیت ظلمتِ زنداں میں جنم لیتی ہے
انقلابات کی تاریخ ہے زنجیر مری
اپنی جانب کبھی دیکھا ہی نہیں تھا، ورنہ
وُسعتیں دونوں جہانوں کی ہیں جاگیر مری
دوستی کیسی؟ رہ و رسم عمومی بھی گئی
پیار کی بات کہی آپ سے، تقصیر مری
جامی ردولوی
No comments:
Post a Comment