دل آنکھ کو دیتا رہا خواب اور طرح کے
رستے میں مگر آ گئے باب اور طرح کے
گُلچیں سے نہ موسم سے، نہ بھنورے سے ہراساں
اب کلیوں پہ اُتریں گے عذاب اور طرح کے
اب خانہ بدوشی ہمیں ورثے میں ملے گی
بننے لگے ہجرت کے نصاب اور طرح کے
پِھر حاکمِ شہر آنکھ میں رکھتا ہے مروت
درویش پہ اتریں گے عتاب اور طرح کے
جب ہارنا طے ہو گیا بازی سے بھی پہلے
میدان میں پھر ہوں گے حساب اور طرح کے
شاید کوئی چور اپنے بھی اب دِل میں ہے نیر
ہم دینے لگے اُن کو جواب اور طرح کے
نیر جہاں بیگم
No comments:
Post a Comment