Saturday, 27 March 2021

حال ہوتا ہے کیسا غربت سے

حال ہوتا ہے کیسا غربت سے

صاف ظاہر ہے میری رنگت سے

خود ہمارا ہی معتقد نکلا

ہم نے دیکھا جسے عقیدت سے

جس کو دیکھے بنا قرار نہیں

اس کو دیکھا نہیں ہے مدت سے

گرچہ خلعت ہے اپنی بوسیدہ

اوڑھ رکھی ہے پھر بھی جدت سے

پھاڑ ڈالے گا اس کی نفرت کو

خط جو لکھا گیا ہے الفت سے

آب پیتا ہوں جس قدر حماد

پیاس لگتی ہے اور شدت سے


حماد احمد بھٹی

No comments:

Post a Comment