حال ہوتا ہے کیسا غربت سے
صاف ظاہر ہے میری رنگت سے
خود ہمارا ہی معتقد نکلا
ہم نے دیکھا جسے عقیدت سے
جس کو دیکھے بنا قرار نہیں
اس کو دیکھا نہیں ہے مدت سے
گرچہ خلعت ہے اپنی بوسیدہ
اوڑھ رکھی ہے پھر بھی جدت سے
پھاڑ ڈالے گا اس کی نفرت کو
خط جو لکھا گیا ہے الفت سے
آب پیتا ہوں جس قدر حماد
پیاس لگتی ہے اور شدت سے
حماد احمد بھٹی
No comments:
Post a Comment