بڑے حیران گھر کے آئینے ہیں
یہ کیوں خاموشیوں کے سلسلے ہیں
مِرے پیروں میں گرچہ آبلے ہیں
مگر باقی ابھی کچھ راستے ہیں
بساط زندگی تو بچھ چکی ہے
بس اب شہ مات کے ہی مرحلے ہیں
وہ سب کچھ جان کر انجان سا ہے
اب اس سے کیا کہیں کیا مسئلے ہیں
بلندی پر ابھی ہم کو نہ سمجھو
کئی قصے ابھی تو ان کہے ہیں
ہماری ذات کے صحرا میں راشد
ادھورے خواب ہی بکھرے پڑے ہیں
راشد ندیم
No comments:
Post a Comment