جس نے پودا کوئی نفرت کا اُگایا ہو گا
خار چبھنے پہ سمجھ میں اسے آیا ہو گا
سب ہیں ہشیار اسے دیکھ درندوں سے سوا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہو گا
تار ہر ایک کتر ڈالے خرد نے صیاد
صید اس دام میں کوئی بھی نہ آیا ہو گا
ساتھ اس کے کئی ارمان ہوئے ہوں گے خاک
ہو کے مجبور کوئی خط جو جلایا ہو گا
ہو گا فوراً ہی رویہ سے تِرے علم مجھے
دل میں اک تیرے ذرا بال بھی آیا ہو گا
ان کی آہیں تمہیں برباد کریں گی اک دن
جن کو اربابِ جفا تم نے ستایا ہو گا
بن گیا صورتِ تصویر مجسم جو وہ
کچھ تو قاصد نے ابھی اس کوسنایا ہو گا
آج بھی اک اثر شدتِ وحشت اے قیس
وادئ نجد کے ذروں میں سمایا ہو گا
غم رضیہ ہے فقط اس کو ہی رسوائی کا
نام خود جس نے کہ محنت سے کمایا ہو گا
رضیہ کاظمی
No comments:
Post a Comment