Sunday 28 March 2021

کتاب عشق کا شاید یہی قصہ پرانا ہے

 کتابِ عشق کا شاید یہی قصہ پرانا ہے

کہ ہر ممکن کسی ذی ہوش کو مجنوں بنانا ہے

مرے سانپ اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کا زمانہ ہے

حقیقت بھی یہی ہے آج کل، یہ ہی فسانہ ہے

کرو موقوف سارے کام ہر تقریب سے پہلے

اعزّہ اور اقارب کو بھی تو آخر منانا ہے

سبب ناراضئ دل کا خدارا کہہ دو بالآخر

سدا کی طرح یوں ہی جی جلانا یا ستانا ہے

نہ ہو کیوں کر اسیرِ دام آخر طائرِ حُر بھی

برائے زندگی اس کو تلاش آب و دانہ ہے

ڈرائیں جب کبھی تاریکیاں راہوں میں منزل کی

ہمیشہ لے کے مشعل ہاتھ میں ان کو مٹانا ہے

جسے دیکھو رضیہ مبتلائے خود فریبی ہے

بزعمِ خود عمل ہر ایک اس کا عاقلانہ ہے


رضیہ کاظمی

No comments:

Post a Comment