کوئی تو دل کی نگاہوں سے دیکھتا جائے
ہماری روح کے کچھ غم سمیٹتا جائے
تمہارے ملنے کی ہر آس آج ٹوٹ گئی
تمہیں بتاؤ کہ اب کس طرح جیا جائے
ذرا تو سوچیے اس دل کا حال کیا ہو گا
تلاش گُل میں جو پتھر کی چوٹ کھا جائے
سجا کے تم کو گُلوں سے اُٹھائے ہیں پتھر
زمانہ کتنا ستم گر ہے کیا کیا جائے
کریں گے کیسے حقیقت کا سامنا ہم لوگ
ہمیں تو خواب ہی کوئی دکھا دیا جائے
کسی طرح تو اندھیرے غموں کے چھٹ جائیں
مِرا بجھا ہوا دل ہی کوئی جلا جائے
رہِ حیات میں کانٹے بچھیں کہ پھول کھلیں
یہ شرط ہے، تِری جانب وہ راستہ جائے
مسعودہ حیات
No comments:
Post a Comment