Sunday, 28 March 2021

ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے

 ایک مدت سے اُسے ہم نے جدا رکھا ہے

یہ الگ بات ہے، یادوں میں بسا رکھا ہے

ہے خلا چاروں طرف اس کے تو ہم کیوں نہ کہیں

کس نے اس دھرتی کو کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے

جو سدا ساتھ رہے، اور دکھائی بھی نہ دے

نام اس کا تو زمانے نے 'خدا' رکھا ہے

مِرے چہرے پہ اُجالا ہے تو حیراں کیوں ہے

ہم نے سپنے میں بھی ایک چاند چھپا رکھا ہے

جو طلب چاندنی راتوں میں بھٹکتی ہی رہی

اب اسے دھوپ کی چادر میں سُلا رکھا ہے


پریم بھنڈاری

No comments:

Post a Comment