غم کی بے پناہی میں، دل نے حوصلہ پایا
تیرگی کے جنگل میں، چشمۂ ضیا پایا
آفتاب کا پیکر، بن گیا بدن اپنا
روشنی میں سائے کا، سحر ٹوٹتا پایا
کھل گئی جو آنکھ اپنی، وقت کی صدا سن کر
ان گِنت جہانوں کا، در کُھلا ہوا پایا
ہر قدم پہ ساتھ اپنے، خود کو دیکھتے ہیں ہم
ہم سفر کوئی اپنا، اب نہ دوسرا پایا
مدتوں کے بعد ان سے، اس طرح ملے ہیں ہم
اجنبی کوئی جیسے، صورت آشنا پایا
عشق کے سمندر میں، ہجر کے بھنور دیکھے
وصل کی تمنا میں، حشر کا مزا پایا
گرد میں ہوا جو گم، قافلہ زمانے کا
مہر و ماہ کو اپنے، سائے میں پڑا پایا
لے اُڑی غزل آخر، زندگی کی طغیانی
روح کے سمندر میں، جسم ڈُوبتا پایا
سارا غزل
No comments:
Post a Comment