Saturday, 27 March 2021

پوچھیں وہ کاش حال دل بیقرار کا

 پوچھیں وہ کاش حال دلِ بے قرار کا

ہم بھی کہیں کہ شُکر ہے پروردگار کا

لازم اگر ہے شکر ہی پروردگار کا

پھر کیا علاج گردشِ لیل و نہار کا

صیاد بھی پہنچ گیا، گُلچی بھی باغ میں

اے ہم صفیر! آ گیا موسم بہار کا

تدبیر کیا ہو صبر و شکیب و قرار کی

وہ تُند خو ہے بس کا، نہ دل اِختیار کا

کیوں کر مِٹے ندامتِ اظہارِ آرزو

عالم نظر میں ہے نگہِ شرمسار کا

قانون کس نے بدلا ہے قدرت کا شیخ جی

دارو ہے اب بھی مے ہی غمِ روزگار کا

ان نامیوں کے حشر سے عبرت پذیر ہو

باقی نہیں نشان بھی جن کے غُبار کا

رکھے گا بے قرار تمہیں بھی تمام عمر

مرنا تڑپ تڑپ کے کسی بے قرار کا

بے لوث ہو ہوس سے اگر عشق اے وفا

ہے ذکرِ یار میں بھی مزہ وصلِ یار کا


میلہ رام وفا

No comments:

Post a Comment