نہ دلیلیں، نہ ہی ابابیلیں
صبر کے گھونٹ ہیں، وہی پی لیں
کیسی بے خواب ہیں سبھی آنکھیں
جس طرح خشک و بے اماں جھیلیں
مات کھا جائیں ضبط سے اپنے
اور انسانیت پہ بازی لیں
ایک انسان کا لہو کر کے
اس پہ شیطان کی گواہی لیں
کوچ کر جائیں ایسے کوچے سے
ساتھ ناکامیوں کی پونجی لیں
جہل میں سہل ہے انہیں شاید
اس پہ اک دوسرے سے تھپکی لیں
بس نہیں چل رہا فرشتوں کا
ورنہ پلٹی ہوئی یہ دھرتی لیں
جن کے شجرے میں بس جہالت ہے
ان سے نسلوں کی رہنمائی لیں
راکھ سورج ہی کی نکلتی ہے
جب کسی رات کی تلاشی لیں
یہ سیاہی ہے اس لیے شاید
تا کہ اخبار اپنی سُرخی لیں
کتنے ہی گریے ہم پہ واجب ہیں
پر سہولت نہیں کہ روہی لیں
صرف پیدا ہوں اس زمانے میں
اور پھر عمر بھر تسلی لیں
سخت نادم ہوں اپنے بچوں سے
یہی ماحول ہے، اگر جی لیں
اکرام بسرا
No comments:
Post a Comment