Saturday, 27 March 2021

خزاں کے جاتے ہی رت کا پانسہ پلٹ گیا ہے

 واپسی


خزاں کے جاتے ہی رُت کا پانسہ پلٹ گیا ہے

بہار کی خوشبوؤں سے گلشن کا ذرہ ذرہ مہک رہا ہے

زمیں کی رنگت بدل گئی ہے

کبھی تغیّر جو موسموں کا

نرالے گیتوں کے ساتھ آیا

تو زندگی کی عزیز تر ساعتوں کے مالک

بھڑک اٹھے تھے

پلک پلک پر کئی کہے ان کہے فسانے

مچل گئے تھے

تو قندِ گُفتار میں بھی تلخی رچی ہوئی تھی

فضا کی آلودگی کا شکوہ تھا ان کے لب پر

شُنیدہ باتوں کا خوف ان کے دلوں میں ایسا بسا ہوا تھا

کہ وہ کسی بات پر یقیں بھی نہ کرنے پاتے

گِرے تھے ان کی سماعتوں اور بصارتوں پر دبیز پردے

کبھی جو موسم نے رُخ جو بدلا

تو ان کے ہوش و حواس جاگے

انہوں نے قُدرت کے رنگ دیکھے

تو زندگی کا یقین آیا

بہار کی سمت لوٹ آئے


تاج سعید

No comments:

Post a Comment