جن خوابوں سے نیند اڑ جائے ایسے خواب سجائے کون
اک پَل جھوٹی تسکیں پا کر ساری رات گنوائے کون
یہ تنہائی، یہ سناٹا، دل کو مگر سمجھائے کون
اتنی بھیانک رات میں آخر ملنے والا آئے کون
سنتے ہیں کہ ان راہوں میں مجنوں اور فرہاد لُٹے
لیکن اب آدھے رستے سے لوٹ کے واپس جائے کون
سنتے سمجھتے ہوں تو ان سے کوئی اپنی بات کہے
گونگوں اور بہروں کے آگے ڈھول بجانے جائے کون
اس محفل میں لوگ ہیں جتنے سب کو اپنا رونا ہے
تابش میں خاموش طبیعت میرا حال سنائے کون
فضل تابش
No comments:
Post a Comment