درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لیے
سب کے سب آنسو نہیں ہوتے بہانے کے لیے
عمر تنہا کاٹ دی وعدہ نِبھانے کے لیے
عہد باندھا تھا کسی نے آزمانے کے لیے
یہ قفس ہے گھر کی زیبائش بڑھانے کے لیے
کچھ دیئے دیوار پر رکھنے ہیں وقتِ انتظار
کچھ دیئے لایا ہوں پلکوں پر جلانے کے لیے
وہ بظاہر تو ملا تھا ایک لمحے بھر کو عدیؔم
عمر چاہیئے اس کو بھُلانے کے لیے
لوگ زیرِ خاک بھی تو ڈوب جاتے ہیں عدیؔم
اک سمندر ہی نہیں ہے ڈوب جانے کے لیے
تُو پسِ خندہ لبی، آہوں کی آوازیں تو سن
یہ ہنسی تو آئی ہے آنسو چھپانے کے لیے
کوئی غم ہو کوئی دکھ ہو درد کوئی ہو عدیؔم
مسکرانا پڑ ہی جاتا ہے زمانے کے لیے
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment