Wednesday 25 January 2017

درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لئے

درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لیے
سب کے سب آنسو نہیں ہوتے بہانے کے لیے
عمر تنہا کاٹ دی وعدہ نِبھانے کے لیے
عہد باندھا تھا کسی نے آزمانے کے لیے
یہ قفس ہے گھر کی زیبائش بڑھانے کے لیے
یہ پرندے تو نہیں ہیں آشیانے کے لیے
کچھ دیئے دیوار پر رکھنے ہیں وقتِ انتظار
کچھ دیئے لایا ہوں پلکوں پر جلانے کے لیے
وہ بظاہر تو ملا تھا ایک لمحے بھر کو عدیؔم
عمر چاہیئے اس کو بھُلانے کے لیے
لوگ زیرِ خاک بھی تو ڈوب جاتے ہیں عدیؔم
اک سمندر ہی نہیں ہے ڈوب جانے کے لیے
تُو پسِ خندہ لبی، آہوں کی آوازیں تو سن
یہ ہنسی تو آئی ہے آنسو چھپانے کے لیے
کوئی غم ہو کوئی دکھ ہو درد کوئی ہو عدیؔم
مسکرانا پڑ ہی جاتا ہے زمانے کے لیے

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment