Friday, 27 January 2017

نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے

نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے
تو کر گئے کوچ میری آنکھوں سے خواب سارے
بیاضِ دل پر غزل کی صورت رقم کیے ہیں
تِرے کرم بھی تِرے ستم بھی حساب سارے
بہار آئی ہے تم بھی آؤ ادھر سے گزرو
کہ دیکھنا چاہتے ہیں تم کو گلاب سارے
یہ سانحہ ہے کہ واعظوں سے الجھ پڑے ہم
یہ واقعہ ہے کہ پی رہے تھے شراب سارے
بھلا ہوا ہم گناہ گاروں نے ضد نہیں کی 
سمیٹ کر لے گیا ہے ناصح ثواب سارے
فراؔز کس نے مِرے مقدر میں لکھ دیئے ہیں
بس ایک دریا کی دوستی میں سراب سارے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment