تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
تڑپ اٹھا میرا منصف بھی فیصلہ دے کر
میرے خدا، یہ برہنہ لباس پوش ہیں کون
عذاب کیا یہ دیا مجھ کو چشم وا دے کر
میں اب مروں کہ جیوں مجھ کو یہ خوشی ہے بہت
کیا پھر اس نے وہی جو خود اس نے سوچا تھا
برا تو میں بھی بنا اس کو مشورہ دے کر
میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں
جو سو گیا میری آنکھوں کو رتجگا دے کر
وہ رات رات کا مہماں تو عمر بھر کے لیے
چلا گیا مجھے یادوں کا سلسلہ دے کر
جو وا کیا بھی دریچہ تو آج موسم نے
پہاڑ ڈھانپ دیا ابر کی ردا دے کر
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
چٹخ چٹخ کے جلی شاخ شاخ جنگل کی
بہت سرور ملا آگ کو ہوا دے کر
پھر اس کے بعد پہاڑ اس کو خود پکاریں گے
تو لوٹ آ، اسے وادی میں اک صدا دے کر
ستونِ ریگ نہ ٹھہرا عدؔیم چھت کے تلے
میں ڈھے گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment