Sunday, 22 January 2017

اس چوٹ کو پوچھے کوئی اس خستہ جگر سے

اس چوٹ کو پوچھے کوئی اس خستہ جگر سے
اترا جو تِرے دل سے، گرا تیری نظر سے
اس طرح گزرتے ہیں تِری راہگزر سے
جو پاؤں کا ہے کام وہ ہم لیتے ہیں سر سے
دو چار بہے اشک تو کیا دیدۂ تر سے
بارش کا مزا یہ ہے کہ جو ٹوٹ کے برسے
کیا ان کی حقیقت ہے کہ تشبیہ انہیں دوں
غنچے کو تِرے لب سے، رگِ گل کو کمر سے
یوسف کی محبت کو زلیخا سے تو پوچھو
گو حضرتِ یعقوب کو تھا عشق پسر سے
دیکھا کہ رسوا کس میں ہے نرمی و نزاکت 
رخسار ملے آج انہوں نے گلِ تر سے
اے داغؔ مصیبت ہے حیاتِ ابدی بھی
اس رنج کو پوچھے کوئی الیاس و خضر سے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment