عمارت پر نہ جا کچھ بھی نہیں شاہوں کی محفل میں
محبت کا خزانہ ہے مِرے ٹوٹے ہوئے دل میں
جب آدھی رات پردہ ڈال دیتی ہے زمانے پر
کوئی دربار کرتا ہے مِرے کاشانۂ دل میں
نظر نے پا لیا ہے انتہائے عیشِ فانی کو
مزاجِ خاکساری میں نزاکت ہے قیامت کی
نہ لے جاؤ مجھے مغرور انسانوں کی محفل میں
صدا دی جب درِ دل پر یہ دنیا نے کہ حاضر ہوں
ندا آئی "پلٹ جا" تیری گنجائش نہیں دل میں
سبق لیتا ہے اکثر معرفت کا فلسفہ ہم سے
کہ ہم ڈوبے ہوئے ہیں جوؔش روحانی مسائل میں
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment