Monday 30 January 2017

قاتل سڑکیں نوچ رہی ہیں

قاتل سڑکیں نوچ رہی ہیں 
وہ آنکھیں جو سوچ رہی ہیں
شہر میں جتنی قبریں ہیں 
میری گنتی سے باہر ہیں 
مجھ کو تو معلوم نہیں کیوں خواب اجاڑے جاتے ہیں 
کیوں ورقے پھاڑے جاتے ہیں 
چلتے پھرتے، آتے جاتے روز جنازے ملتے ہیں 
واپس جانے والے جب بھی آنسو دے کر جاتے ہیں
ہتھیاروں کے تاجر بھی پھر
نوحے پڑھتے آتے ہیں
ہاتھ سبھی کے صاف ہیں لیکن
خون کے گہرے چھینٹے ان کے
ہاتھوں سے جھڑتے رہتے ہیں 
چغلی کھاتے لہجے ان کے
آپس میں لڑتے رہتے ہیں
جرم کی اندھی گلیوں میں کچھ لوگ نقابوں والے ہیں 
ڈرپوک، کمینے، بزدل، وحشی
قاتل دیکھے بھالے ہیں
میرے مالک صاف بتا جو موت کا پرمٹ لاتے ہیں 
انہیں کون اجازت دیتا ہے 
کس کے کہنے پر آتے ہیں

سدرہ سحر عمران

No comments:

Post a Comment