قاتل سڑکیں نوچ رہی ہیں
وہ آنکھیں جو سوچ رہی ہیں
شہر میں جتنی قبریں ہیں
میری گنتی سے باہر ہیں
مجھ کو تو معلوم نہیں کیوں خواب اجاڑے جاتے ہیں
چلتے پھرتے، آتے جاتے روز جنازے ملتے ہیں
واپس جانے والے جب بھی آنسو دے کر جاتے ہیں
ہتھیاروں کے تاجر بھی پھر
نوحے پڑھتے آتے ہیں
ہاتھ سبھی کے صاف ہیں لیکن
خون کے گہرے چھینٹے ان کے
ہاتھوں سے جھڑتے رہتے ہیں
چغلی کھاتے لہجے ان کے
آپس میں لڑتے رہتے ہیں
جرم کی اندھی گلیوں میں کچھ لوگ نقابوں والے ہیں
ڈرپوک، کمینے، بزدل، وحشی
قاتل دیکھے بھالے ہیں
میرے مالک صاف بتا جو موت کا پرمٹ لاتے ہیں
انہیں کون اجازت دیتا ہے
کس کے کہنے پر آتے ہیں
سدرہ سحر عمران
No comments:
Post a Comment