Tuesday 31 January 2017

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے
اگلے وقتوں کی یادگاروں کو
آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے
سوکھتے جا رہے ہیں گل بوٹے
باغ کانٹے اگائے جاتا ہے
جاتے موسم کو کس طرح روکوں
پتہ پتہ اڑائے جاتا ہے
حال کس سے کہوں کہ ہر کوئی
اپنی اپنی سنائے جاتا ہے
کیا خبر کون سی خوشی کے لیے
دل یونہی دن گنوائے جاتا ہے
رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصرؔ
تجھے کیا رنج کھائے جاتا ہے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment