شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے
اگلے وقتوں کی یادگاروں کو
آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے
سوکھتے جا رہے ہیں گل بوٹے
جاتے موسم کو کس طرح روکوں
پتہ پتہ اڑائے جاتا ہے
حال کس سے کہوں کہ ہر کوئی
اپنی اپنی سنائے جاتا ہے
کیا خبر کون سی خوشی کے لیے
دل یونہی دن گنوائے جاتا ہے
رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصرؔ
تجھے کیا رنج کھائے جاتا ہے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment