Monday 23 January 2017

رات کے سمندر میں غم کی ناؤ چلتی ہے

رات کے سمندر میں غم کی ناؤ چلتی ہے
دن کے گرم ساحل پر زندہ لاش جلتی ہے
اک کھلونا ہے گیتی، توڑ توڑ کے جس کو
بچوں کی طرح دنیا روتی ہے مچلتی ہے
فکر و فن کی شہزادی کس بلا کی ناگن ہے
شب میں خون پیتی ہے دن میں زہر اگلتی ہے
زندگی کی حیثیت بوند جیسے پانی کی 
ناچتی ہے شعلوں پر چشمِ نم میں جلتی ہے
بھوکے پیٹ کی ڈائن سوتی ہی نہیں اک پل
دن میں دھوپ کھاتی ہے شب میں پی کے چلتی ہے
پتیوں کی تالی پر جاگ اٹھے چمن والے
اور پتی پتی اب بیٹھی ہاتھ ملتی ہے
گھپ اندھیری راہوں پر مشعلِ حسامِ زر
ہے لہو میں ایسی تر بجھتی ہے نہ جلتی ہے
انقلابِ دوراں سے کچھ تو کہتی ہی ہو گی
تیز ریل گاڑی جب پٹریاں بدلتی ہے
تشنگی کی تفسیریں مثلِ شمع ہیں وامقؔ
جو زبان کھلتی ہے اس سے لو نکلتی ہے

وامق جونپوری

No comments:

Post a Comment