Saturday 28 January 2017

زرد موسم کی اذیت بھی اٹھانے کا نہیں

زرد موسم کی اذیت بھی اٹھانے کا نہیں
میں درختوں کی جگہ خود کو لگانے کا نہیں
اب تِرے ساتھ تعلق کی گزرگاہوں پر
وقت مشکل ہے، مگر ہاتھ چھڑانے کا نہیں
قریۂ سبز سے آتی ہوئی پُر کیف ہوا 
طاق پر رکھا مِرا دِیپ بجھانے کا نہیں
صبر کا غازہ مِرے عشق کی زینت ٹھہرا
سو، میں آنکھوں سے کوئی اشک بہانے کا نہیں
بات یہ مجھ کو درختوں نے بتائی ہوئی ہے
ہر نیا زخم زمانے کو دکھانے کا نہیں
چل رہا تھا تو سبھی لوگ مِرے بازو تھے
گر پڑا ہوں تو کوئی ہاتھ بڑھانے کا نہیں
مجھ کو یہ میر تقی میر بتاتے ہیں سعیدؔ
عشق کرنا ہے مگر جان سے جانے کا نہیں

مبشر سعید

No comments:

Post a Comment