زرد موسم کی اذیت بھی اٹھانے کا نہیں
میں درختوں کی جگہ خود کو لگانے کا نہیں
اب تِرے ساتھ تعلق کی گزرگاہوں پر
وقت مشکل ہے، مگر ہاتھ چھڑانے کا نہیں
قریۂ سبز سے آتی ہوئی پُر کیف ہوا
صبر کا غازہ مِرے عشق کی زینت ٹھہرا
سو، میں آنکھوں سے کوئی اشک بہانے کا نہیں
بات یہ مجھ کو درختوں نے بتائی ہوئی ہے
ہر نیا زخم زمانے کو دکھانے کا نہیں
چل رہا تھا تو سبھی لوگ مِرے بازو تھے
گر پڑا ہوں تو کوئی ہاتھ بڑھانے کا نہیں
مجھ کو یہ میر تقی میر بتاتے ہیں سعیدؔ
عشق کرنا ہے مگر جان سے جانے کا نہیں
مبشر سعید
No comments:
Post a Comment