Tuesday, 31 January 2017

لگ رہا ہے یہیں کہیں میں ہوں

لگ رہا ہے یہیں کہیں میں ہوں
آپ کہتے رہیں، نہیں میں ہوں
اک جگہ مل کے بیٹھتے تھے ہم 
اب کہیں تم ہو اور کہیں میں ہوں 
مجھ پہ تیرا گماں ہوا سب کو
میں تو کہتا رہا، نہیں میں ہوں 
خود کو بے آسرا سمجھ مت تُو
دیکھ کر لے مِرا یقیں، میں ہوں 
خود پہ میں منکشف ہوا ہوں مگر
صرف اس راز کا امیں میں ہوں
درمیاں اک جہاں ہوا آباد
آسماں تم ہو اور زمیں میں ہوں 
لوٹ کر اس طرف جو جانا ہو
دیکھنا آج بھی وہیں میں ہوں 
میری دنیا تو صرف تجھ سے ہے
تیری دنیا میں کیا کہیں میں ہوں 
کون پہنے گا میرے بعد تجھے
تُو انگوٹھی ہے اور نگیں میں ہوں 
سارے سائل نہیں ہیں اک جیسے
دیکھ! در کھول، مہ جبیں میں ہوں 
اور ہیں جن پہ تیری ہیبت ہے
سامنے تیرے نکتہ چیں، میں ہوں 
تُو نے سونپی تھی بے گھری مجھ کو
بے مکانی میں بھی مکیں میں ہوں
ایک وہ خوش خیال ہے قیصر
شہر میں دوسرا حسیں میں ہوں 

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment