Saturday, 28 January 2017

بدن کے جام میں کھلتے گلاب جیسی ہے

بدن کے جام میں کھِلتے گلاب جیسی ہے
سنا ہے اس کی جوانی شراب جیسی ہے
کنول کنول ہے سراپا، غزل غزل چہرہ
وہ ہوبہو کسی شاعر کے خواب جیسی ہے
اندھیرے دور کرے سب کی پارسائی کے
وہ ایک شکل کہ جو ماہتاب جیسی ہے
بغیر جام و سبو، چاند رات کی حالت
کسی غریب کے عہدِ شباب جیسی ہے
نہ شاعری، نہ محبت، نہ جام، اے واعظ
یہ زندگی بھی تِری اک عذاب جیسی ہے
قتیلؔ میں نے کیا پیار اک ستمگر سے
یہ وہ خطا ہے جو کارِ ثواب جیسی ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment