توبہ توبہ سے ندامت کی گھڑی آئی ہے
مے کدے پر بڑی گھنگھور گھٹا چھائی ہے
رنگ کچھ اتنا مِری وحشتِ دل لائی ہے
مجمعِ عام ہے اور آپ کا سودائی ہے
اشک پیتا ہوں تو لو دیتے ہیں چھالے دل کے
لو نہ دینے لگیں جلتے ہوئے ہوئے گُل کے رخسار
عارض گل پہ جو شبنم نے جگہ پائی ہے
میں تصور کی حدوں سے بھی گزر جاؤں گا
مجھ سے ملنے میں اگر آپ کی رسوائی ہے
جب بھی الجھا ہے سکوتِ شب غم سے مِرا دل
تیری یادوں نے طبیعت مِری بہلائی ہے
شیخ صاحب کی نصیحت بھری باتوں کیلئے
کتنا رنگین جواب آپ کی انگڑائی ہے
کون کہتا ہے بلندی پہ نہیں ہوں ساغرؔ
میری معراجِ محبت مِری رسوائی ہے
ساغر خیامی
No comments:
Post a Comment