Tuesday 31 January 2017

میرے گھر سے تو سر شام ہوئے رخصت

میرے گھر سے تو سرِ شام ہوئے رخصت

میرے گھر سے تو سرِ شام ہوئے ہو رخصت
میرے خلوت کدۂ دل سے نہ جانا ہو گا
ہجر میں اور تو سب موت کے ساماں ہوں گے
اک یہی یاد بہلنے کا بہانا ہو گا
تم تو جانے کو ہو اس شہر کو ویراں کر کے
اب کہاں اس دلِ وحشی کا ٹھکانا ہو گا
بھیگی راتوں میں فقط درد کے جگنو پکڑیں
سُونی راتوں میں کبھی یاد کے تارے چومیں
خواب ہی خواب میں سینے سے لگائیں تجھ کو
تیرے گیسو ہی کبھی درد کے مارے چومیں
اپنے زانو پہ تِرا سر ہی کوئی دم رکھ لیں
اپنے ہونٹوں سے تِرے ہونٹ بھی پیارے چومیں

ابن انشا

No comments:

Post a Comment