Monday 30 January 2017

مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے

مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے
ان داتا کیسا ہے، آگ نہ پانی دے
اس دھرتی پر ہریالی کی جوت جگا
کالے میگھا پانی دے، گردانی دے
بند افلاک کی دیواروں میں روزن کر
کوئی تو منظر مجھ کو امکانی دے
میرے دل پر کھول کتابوں کے اسرار
میری آنکھ کو اپنی صاف نشانی دے
ارض و سما کے پس منظر سے سامنے آ
دل کو یقیں دے، آنکھوں کو حیرانی دے
میرے ہونے میرے نہ ہونے میں کیا ہے
موت کو مفہوم اس ہستی کو معانی دے
برکت دے دن پھیرنے والی دعاؤں کو
رات کو کوئی خوش تعبیر کہانی دے
ٹوٹتی رہتی ہے کچے دھاگے سی نیند
آنکھوں کو ٹھنڈک خوابوں کو گرانی دے
مجھ کو جہاں کے ساتوں سکھ دینے والے
دینا ہے تو کوئی دولت لافانی دے
تجھ سے جدا ہو کر تو میں مرجاؤں گا
مجھ کو اپنا سر اے دوست نشانی دے
اک اک پتھر راہ کا زیبؔ ہٹاتا چل
پیچھے آنے والوں کو آسانی دے

زیب غوری

No comments:

Post a Comment