آشفتگی کسی کی اثر کچھ تو کر گئی
بن بن کے رخ پہ زلف تمہارے بکھر گئی
کیا کہیے کس طرح سے جوانی گزر گئی
بدنام کرنے آئی تھی بدنام کر گئی
کیا کیا رہی سحر کو شبِ وصل کی تلاش
میری شبِ فراق پہ کعبے میں شور ہے
یارب! غضب ہوا کہ نمازِ سحر گئی
رہتی ہے کب بہارِ جوانی تمام عمر
مانندِ بوئے گل اِدھر آئی، اُدھر گئی
اے داؔغ کیا کہوں شبِ فرقت کی واردات
جو میرے ہاتھ سے مِرے دل پر گزر گئی
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment