Sunday, 22 January 2017

آشفتگی کسی کی اثر کچھ تو کر گئی

آشفتگی کسی کی اثر کچھ تو کر گئی
بن بن کے رخ پہ زلف تمہارے بکھر گئی
کیا کہیے کس طرح سے جوانی گزر گئی
بدنام کرنے آئی تھی بدنام کر گئی
کیا کیا رہی سحر کو شبِ وصل کی تلاش
کہتا رہا ابھی تو یہیں تھی، کدھر گئی
میری شبِ فراق پہ کعبے میں شور ہے
یارب! غضب ہوا کہ نمازِ سحر گئی
رہتی ہے کب بہارِ جوانی تمام عمر
مانندِ بوئے گل اِدھر آئی، اُدھر گئی
اے داؔغ کیا کہوں شبِ فرقت کی واردات
جو میرے ہاتھ سے مِرے دل پر گزر گئی

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment