اٹھتا شباب اور فضا لطفِ نور کی
ماجؔد بدن تھا اس کا کہ چھاگل سرور کی
جس کی چھنک دھنک ہمیں مدہوش کر گئی
اور صبر یہ کہ ہم نے وہ چُوڑی نہ چُور کی
شہکار اک خدا کا تھا، مل کر جسے لگا
فتنہ زمیں پہ ہے کہ خرابی فلک پہ ہے
بدلی لگیں ادائیں سحر سے طیور کی
کچھ اور ہم سے ہو نہ سکا یا بھلے ہُوا
دعویٰ ہے یہ کہ ہم نے محبت ضرور کی
تب سے رہا میں اگلے سَموں ہی کا منتظر
دیکھی ہے شکل جب سے درختوں کے بُور کی
خود رَو ہے جس کو دیکھیے، درس اس سے کون لے
ابلیس کو سزا جو ملی تھی غرور کی
اک اک ادا ہے آپ کی ماجؔد! پسندِ دہر
پر شاعری پسند نہیں ہے حضور کی
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment