Sunday 22 January 2017

جو تیرے رازداں تھے بڑے معتبر ملے

جو تیرے رازداں تھے بڑے معتبر ملے
کچھ نیم آشنا ملے، کچھ بے خبر ملے
ملتے ہیں یوں وہ صبح کے ہنگام جس طرح
بے ساختہ ثواب نمازِ سحر ملے
مجھ کو جوابِ خط کی ضرورت نہیں مگر
صورت تو اس کی دیکھ لوں گر نامہ بر ملے
شکوہ نہیں تمہارے نہ ملنے کا کچھ ، مگر
تم خود ہی یہ بتاؤ کہ کب اور کدھر ملے
پاسِ تکلفات میں عمریں گزر گئیں
اِک دن تو بے دریغ نظر سے نظر ملے
تیزی سے اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوں میں
وہ اپنے گھر ملے، نہ رقیبوں کے گھر ملے
لگتیں تھیں خصلتیں مِری، بے حد جنہیں خراب
اب ڈھونڈتے ہیں وہ کہ وہی بے ہنر ملے
راہِ عدؔم طویل ہے، نبضِ حیات سست
ساقی سفر دراز ہے، زادِ سفر ملے

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment