جینے کے دن بھی جس نے دئیے ہیں ادھار کے
ہم بندگان ہیں اسی پروردگار کے
یہ بھی نجانے کیوں مِرے دامن میں رہ گئیں
کچھ پتیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلغ ہیں خیر کے
اس نے تو کھال تک ہے ہماری اتار لی
زیرِ نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آ کے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مِرے دور پار کے
ٹھہرائیں ہم رقیب کسے، اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے ہیں تو جہاں بھر کے یار کے
کھویا ہے کیا سے کیا ابھی کھونا ہے کیا سے کیا
ماؔجد یہ کیسے دن ہیں گنت کے شمار کے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment