سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا
نشہ ہر رند کو ہے ایک ہی پیمانے کا
لطف کر، ظلم سے قابو نہیں آنے کا
لوگ دیکھیں نہ تماشا ترے دیوانے کا
مدعا کس پہ عیاں ہو مرے افسانے کا
تابشِ حسن سے یہ رنگ ہے مۓ خانے کا
دل دھڑکتا ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
چشمِ ساقی ہے اُدھر اور مرا دل ہے اِدھر
آج ٹکراؤ ہے پیمانے سے پیمانے کا
اپنی ہی آگ میں جلنے کا مزہ ہے کچھ اور
حوصلہ شمع سے بڑھ کر نہیں پروانے کا
واعظِ شہر نے کیوں بیعتِ ساقی کر لی
اس نے تو عہد کیا تھا مجھے بہکانے کا
زاہد و رند میں ایسی کوئی دوری تو نہیں
فاصلہ ہے، تو چھلکتے ہوئے پیمانے کا
بات بے بات اٹھا دیتا ہے اک چھیڑ نئی
پڑ گیا ہے اسے چسکا مجھے تڑپانے کا
بات کہتا ہے کچھ ایسی کے نہ سمجھے کوئی
یہ بھی اک غور طلب رنگ ہے دیوانے کا
شیخ صاحب کبھی اپنوں کی طرح آ کے پیئیں
مرتبہ غیر پہ کھلتا نہیں مۓ خانے کا
پیرِ مۓ خانہ! تری ایک نظر کافی ہے
میں طلبگار نہ شیشے کا، نہ پیمانے کا
چشمِ ساقی کی توجہ تھی، کہ آڑے آئی
قصد واعظ نے کیا تھا مجھے بہکانے کا
ایک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی
سلسہ ٹوٹ نہ جائے کہیں پیمانے کا
وہ بہار آئی نصیؔر،۔ اور وہ اٹھے بادل
بات ساغر کی چلے ذکر ہو مۓ خانے کا
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment