Tuesday, 31 January 2017

افق پر مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر کب ہے

افق پر مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر کب ہے
ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے
کبھی ایسا بھی تھا لیکن نہ تھے جب بخت برگشتہ
اِسے دریوزہ گر کہئے یہ دل اب تاجور کب ہے
اثر جس کا مرض کی ابتدا تک ہی مسلم تھا
ملے بھی گر تو وہ نسخہ بھلا اب کارگر کب ہے
چلے تو ہیں کہ انسانوں کو ہم، ہم مرتبت دیکھیں
مگر جو ختم ہو جائے بھلا یہ وہ سفر کب ہے
علی الاعلان حق میں بولتا ہو جو نحیفوں کے
اسے مردود کہئیے شہر میں وہ معتبر کب ہے
قفس کا در کہاں کھُلنے کا ہے لیکن اگر ماؔجد
کھُلا بھی دیکھ لیں تو اعتبارِ بال و پر کب ہے

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment