افق پر مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر کب ہے
ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے
کبھی ایسا بھی تھا لیکن نہ تھے جب بخت برگشتہ
اِسے دریوزہ گر کہئے یہ دل اب تاجور کب ہے
اثر جس کا مرض کی ابتدا تک ہی مسلم تھا
چلے تو ہیں کہ انسانوں کو ہم، ہم مرتبت دیکھیں
مگر جو ختم ہو جائے بھلا یہ وہ سفر کب ہے
علی الاعلان حق میں بولتا ہو جو نحیفوں کے
اسے مردود کہئیے شہر میں وہ معتبر کب ہے
قفس کا در کہاں کھُلنے کا ہے لیکن اگر ماؔجد
کھُلا بھی دیکھ لیں تو اعتبارِ بال و پر کب ہے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment