Monday, 30 January 2017

شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا

شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا
نارسائی میں بھی کیا کام ہنر سے نکلا
نشۂ مرگ سی اک لہر لہو میں چمکی
جب قبا اتری تو خنجر بھی کمر سے نکلا
سنگ بے حس اٹھی موج سیہ تاب کوئی
سرسراتا ہوا اک سانپ کھنڈر سے نکلا
میں نے دیکھا تھا سہارے کیلئے چاروں طرف
کہ مِرے پاس ہی اک ہاتھ بھنور سے نکلا
دل کے آشوب کا نیرنگ تھا کیا اشک میں زیبؔ
ایک بے تاب سمندر بھی گہر سے نکلا

زیب غوری

No comments:

Post a Comment