شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا
نارسائی میں بھی کیا کام ہنر سے نکلا
نشۂ مرگ سی اک لہر لہو میں چمکی
جب قبا اتری تو خنجر بھی کمر سے نکلا
سنگ بے حس اٹھی موج سیہ تاب کوئی
میں نے دیکھا تھا سہارے کیلئے چاروں طرف
کہ مِرے پاس ہی اک ہاتھ بھنور سے نکلا
دل کے آشوب کا نیرنگ تھا کیا اشک میں زیبؔ
ایک بے تاب سمندر بھی گہر سے نکلا
زیب غوری
No comments:
Post a Comment