Sunday 22 January 2017

ستم گری کا ہر انداز محرمانہ لگا

ستم گری کا ہر انداز محرمانہ لگا 
میں کیا کروں مِرا دشمن مجھے برا نہ لگا
ہر اک کو زعم تھا کس کس کو ناخدا کہتے
بھلا ہُوا کہ سفینہ کنارے جا نہ لگا
مِرے سخن کا قرینہ ڈبو گیا مجھ کو
کہ جس کو حال سنایا اسے فسانہ لگا
برونِ در نہ کوئی روشنی نہ سایا تھا
سبھی فساد مجھے اندرونِ خانہ لگا
میں تھک گیا تھا بہت پے در پے اڑانوں سے
جبھی تو دام بھی اس بار آشیانہ لگا
ستم کے عہد میں میں بھی شریک ہوں جیسے
مِرا سکوت مجھے سخت مجرمانہ لگا
وہ لاکھ زود فراموش ہو فرازؔ مگر
اسے بھی مجھ کو بھلانے میں اک زمانہ لگا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment