اس کی تحویل کے مراحل میں
میں ہوں تکمیل کے مراحل میں
آنکھوں آنکھوں میں گم ہیں دونوں ہی
اپنی ترسیل کے مراحل میں
عشق رکھتا نہیں ہے عاشق کو
آیتِ عشق کی ہیں مفتی جی
اپنی تاویل کے مراحل میں
بہہ رہا ہے فراتِ عشق ابھی
دجلہ و نیل کے مراحل میں
زیرِ شمشیر سر ہے سجدے میں
حق کی تعمیل کے مراحل میں
اس زمیں اور آسماں کے بیچ
ہم ہیں تشکیل کے مراحل میں
اشک ریزی ہے یا ہے ذات مِری
تجھ میں تحلیل کے مراحل میں
تبسم نواز
No comments:
Post a Comment