وہ پھول ہے اور خوشبوؤں میں پلا ہوا ہے
وہ جب کھِلا تو کئی رتوں کا بھلا ہوا ہے
دمک رہا ہے کچھ ایسے وہ میرے بازوؤں میں
کسی کٹھالی میں سونا جیسے گلا ہوا ہے
وصال کی منزلوں کا وہ بے ریا مسافر
گلاب جیسی وہ آگ اس کے سجل بدن کی
اسی کو چھونے سے ہاتھ میرا جلا ہوا ہے
جہاں سنائی نہ دے کسی کو کسی کی آہٹ
وہیں سے پیدا ہر اک بڑا زلزلہ ہوا ہے
سجا لیے پھول بند ہونٹوں پہ گفتگو کے
نہ پوچھ طے کس طرح سے یہ مرحلہ ہوا ہے
کٹھن سہی ہجرتوں کی پہلی اداس شامیں
پر اپنا انجام چاندنی میں ڈھلا ہوا ہے
ہم آگ میں جل کے بھی تجھے دے رہے ہیں خوشبو
قتیلؔ ہم نے بدن پہ صندل ملا ہوا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment