بن کے سچ آشکار رہئے گا
سی کے لب رازدار رہئے گا
ہے محبت یہ تیر کی مانند
دل کے بس آر پار رہئے گا
یاد رکھئے وفا کا ہے مطلب
مانتا کون بے وفا خود کو
خود میں تو شرمسار رہئے گا
ہے تعلق جو نارسائی کا
اس میں تو پائیدار رہئے گا
بھولئے خواب اس کی تعبیریں
خواب کا بس خمار رہئے گا
اب خوشی کون کس کو دے پائے
غم میں بس غم گسار رہئے گا
وقت منہ زور سا ہے اک گھوڑا
آپ خود شہ سوار رہئے گا
کب کہاں کون توڑ جائے دل
بھیڑ ہے، ہوشیار رہئے گا
عشق کیجے تو سوچ کر کیجے
لازماً تار تار رہئے گا
جب شناسا رہی نہ وہ آنکھیں
کس لیے شہریار رہئے گا
پڑھئے ابرک کو شوق سے لیکن
فائدہ، اشک بار رہئے گا
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment