Monday 30 January 2017

انتظار

انتظار

اماوس رات کا منظر
طلسمِ شب کے پہلو میں
در و دالان ڈوبے ہیں
پرانی، ادھ موئی منڈیر پر
ظلمت کا پہرا ہے

ہوائیں سرسرائیں تو
شکستہ کھڑکیاں، ٹُوٹا ہوا در بین کرتا ہے
اندھیرے میں کسی پل
جب کوئی ننھا سا جگنو ٹمٹماتا ہے
تو برسوں سے سسکتی
در کی چوکھٹ سے لگی
بے چین ماں کو بچھڑا بیٹا یاد آتا ہے
(وہ جس کی منتظر برسوں سے بیٹھی ہے)
عنابی بھیگتی آنکھیں
کہ جن میں کرب پھیلا ہے
سسکتے، کپکپاتے ہونٹ
ہونٹوں پر بہت مہمل سے
کچھ الفاظ رکھے ہیں
برودت سے ٹھٹھرتے ہاتھ
ہاتھوں کی لکیروں پر شکستہ داستانیں ہیں
فقط ہجرت کے قصے ہیں
نظر آفاق کی وسعت میں گم
ان دیکھے نقطے پر جمی ہے
اور سماعت ہر نئی آہٹ پہ
جیسے چونک اٹھتی ہے
خدایا! اب وہ آ جائے

عبدالرحمان واصف

No comments:

Post a Comment