پھر جھومتے لہراتے ہوئے آئے ہیں بادل
ہر سو تری زلفوں کی طرح چھائے ہیں بادل
پھر جاگے ہیں تجدیدِ ملاقات کے ارماں
پھر تیرے شبستاں کی خبر لائے ہیں بادل
یا تیری جدائی کی جلن کا یہ اثر ہے
میں نے ابھی توبہ کا ارادہ ہی کیا تھا
رہ رہ کے مرے جام سے ٹکرائے ہیں بادل
سن کر تیرے گاتے ہوئے کنگن کی صدائیں
کہسار سے دھرتی پہ اتر آئے ہیں بادل
احسان ترا مجھ پہ ہے ساون سے زیادہ
تُو نے تو مری باہوں پہ بکھرائے ہیں بادل
اب کے جو گزر میرا ہوا کوہ مری سے
میں نے ترے قدموں پہ جھکے پائے ہیں بادل
تیرے ہی خیالوں میں قتیلؔ آج بھی گم ہے
کیا جانے وہ کب آئے ہیں کب چھائے ہیں بادل
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment