Saturday 28 January 2017

پھر جھومتے لہراتے ہوئے آئے ہیں بادل

پھر جھومتے لہراتے ہوئے آئے ہیں بادل
ہر سو تری زلفوں کی طرح چھائے ہیں بادل
پھر جاگے ہیں تجدیدِ ملاقات کے ارماں
پھر تیرے شبستاں کی خبر لائے ہیں بادل
یا تیری جدائی کی جلن کا یہ اثر ہے
یا دھوپ میں لپٹے ہوئے کچھ سائے ہیں بادل
میں نے ابھی توبہ کا ارادہ ہی کیا تھا
رہ رہ کے مرے جام سے ٹکرائے ہیں بادل
سن کر تیرے گاتے ہوئے کنگن کی صدائیں
کہسار سے دھرتی پہ اتر آئے ہیں بادل
احسان ترا مجھ پہ ہے ساون سے زیادہ
تُو نے تو مری باہوں پہ بکھرائے ہیں بادل
اب کے جو گزر میرا ہوا کوہ مری سے
میں نے ترے قدموں پہ جھکے پائے ہیں بادل
تیرے ہی خیالوں میں قتیلؔ آج بھی گم ہے
کیا جانے وہ کب آئے ہیں کب چھائے ہیں بادل

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment