سمجھیں وہ ہمارے لیے ابرو میں خم اچھا
رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچھا
کہتے ہیں وہ آلام کو خاطر میں نہ لاؤ
ٹھہرے گا تمہارے لیے اگلا جنم اچھا
وجداں نے کہی بات یہ کیا حق میں ہمارے
جو شاخ بھی کٹتی ہے کٹے نام نمو پر
دیکھو تو چمن پر ہے یہ کیسا کرم اچھا
کس درجہ بھروسہ ہے انہیں ذات پہ اپنی
وہ لوگ کہ یزداں سے جنہیں ہے صنم اچھا
یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر
بسنے سے ہے اس شہر کا ہونا بھسم اچھا
غیروں سے ملے گا تو کھلے گا کبھی تجھ پر
ماؔجد بھی تِرے حق میں نہ تھا ایسا کم اچھا
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment