Wednesday 25 January 2017

گاؤں کے بے چراغ رستے میں

بنجارن

گاؤں کے بے چراغ رستے میں
میلی چادر بچھا کے مٹی پر
یہ جو اندھے اداس دل والی
ایک پاگل دکھائی دیتی ہے
جس کی بے ربط گفتگو اکثر
بام و در کو سنائی دیتی ہے
جس کی آنکھوں میں رات ڈھلتی ہے
جس کی شہ رگ کے ڈھلتے موسم میں
زندگی کی تپش پگھلتی ہے
جم گئے جس کے خواب چہرے پر
جھریاں ہیں بے حساب چہرے پر
کانپتے ہاتھ جن کے سائے سے
آخرِ شب دعا لرزتی ہے
جس کی اکھڑی اکھڑتی سانسوں سے
روز و شب کے بھنور گریزاں ہیں
بھوک جس کے لیے غذا جیسی
جس کے نزدیک پیاس پانی ہے
اس کو عبرت سے دیکھنے والو
اس کے بارے میں اپنے گاؤں کے
داستان گو بزرگ کہتے ہیں
یہ اکیلی اداس بنجارن
اب سے آدھی صدی سے اس جانب
روپ میں دھوپ سے بھی اجلی تھی
پھول کھلتے تھے جس کے آنگن میں
خوشبوؤں سے خراج لیتی تھی
اب سے آدھی صدی کے اس جانب
یہ اکیلی اداس بنجارن
اپنے گاؤں کی اپسراؤں میں
خوبصورت ترین لڑکی تھی

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment