Monday 30 January 2017

خالی نیم پلیٹ اور بھری ہوئی آنکھ

خالی نیم پلیٹ اور بھری ہوئی آنکھ 

سال کے کچھ دن تاوان کے طور پر 
دیئے جائیں اس شخص کو 
جس کے والٹ میں رکھی ہوئی تھیں
ہماری بھری ہوئیں آنکھیں 
ہم جو کاغذوں کی کھٹر پٹر کے دوران 
طے کرتے رہے وہ ملاقاتیں
جنہیں وقت کی دیمک نگل گئی 
دنیا سے باہر جا کر ملے
سنگِ بنیاد اٹھایا جائے 
اس ہجرت کا 
جو تم نے میرے، اور میں نے
تمہارے دل سے کی 
اور ایک سڑک منسوب کی جائے
محبت کی بیل گا ڑی کے نام
سرخ لفافوں پہ ربن کی طرح 
لپٹے ہوئے ہاتھ 
آج بھی اتنے ہی سرد ہیں 
جتنا اس دریا کا پانی 
جس میں گر کر چکنا چور ہو گیا 
ریت سے بنا ہوا چاند 
اور کنارے پر زبان پھیرتا پانی 
اپنی گویائی کھو بیٹھا

سدرہ سحر عمران

No comments:

Post a Comment