خالی نیم پلیٹ اور بھری ہوئی آنکھ
سال کے کچھ دن تاوان کے طور پر
دیئے جائیں اس شخص کو
جس کے والٹ میں رکھی ہوئی تھیں
ہماری بھری ہوئیں آنکھیں
ہم جو کاغذوں کی کھٹر پٹر کے دوران
طے کرتے رہے وہ ملاقاتیں
دنیا سے باہر جا کر ملے
سنگِ بنیاد اٹھایا جائے
اس ہجرت کا
جو تم نے میرے، اور میں نے
تمہارے دل سے کی
اور ایک سڑک منسوب کی جائے
محبت کی بیل گا ڑی کے نام
سرخ لفافوں پہ ربن کی طرح
لپٹے ہوئے ہاتھ
آج بھی اتنے ہی سرد ہیں
جتنا اس دریا کا پانی
جس میں گر کر چکنا چور ہو گیا
ریت سے بنا ہوا چاند
اور کنارے پر زبان پھیرتا پانی
اپنی گویائی کھو بیٹھا
سدرہ سحر عمران
No comments:
Post a Comment